Menu

  1. Home
  2. Blog
  3. کیوں ہر نبی نے امت کو سب سے زیادہ ذکر کی تلقین کی؟

کیوں ہر نبی نے امت کو سب سے زیادہ ذکر کی تلقین کی؟

04 Oct 2025

تعارف

ذکر الٰہی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے دل کو سکون بخشتا ہے اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہر نبی نے اپنی امت کو ذکر کے ذریعے اللہ سے قریب ہونے کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہ عمل ایمان کی بنیادوں کو مضبوط کرتا ہے اور انسان کو اللہ کی رحمت کا مستحق بناتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ہر نبی نے اپنی امت کو ذکر کی تلقین کیوں کی، اس کی اہمیت، فوائد، اور اس کے اثرات کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کریں گے۔

ذکر کی تعریف

1. لفظی معنی

ذکر کا لغوی مطلب ہے "یاد کرنا"۔ اسلامی اصطلاح میں، ذکر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے ناموں اور صفات کا تذکرہ کرنا اور اس کی عبادت کرنا۔

2. شرعی تعریف

شرعاً، ذکر الٰہی کا مطلب ہے اللہ کے ناموں، صفات، اور احکام کا تذکرہ کرنا۔ یہ عمل انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور اس کی روحانی حالت کو بہتر بناتا ہے۔

نبیوں کی تعلیمات میں ذکر کی اہمیت

1. نبیوں کا مقصد

ہر نبی کا بنیادی مقصد اپنے ماننے والوں کو اللہ کی طرف بلانا تھا۔ یہ دعوت ذکر الٰہی کے ذریعے ہی ممکن تھی۔ ذکر کرنا انسان کے دل کو اللہ کی محبت سے بھر دیتا ہے اور اس کی زندگی کو ایک نئے معنی عطا کرتا ہے۔

2. ذکر کے ذریعے قربت

نبیوں نے اپنی امت کو ذکر کی تلقین کی تاکہ وہ اللہ کی قربت حاصل کر سکیں۔ ذکر الٰہی انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور اس کے دل کو سکون بخشتا ہے۔

3. گناہوں کا کفارہ

ذکر الٰہی انسان کے گناہوں کا کفارہ بھی بنتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ مِئَةَ مَرَّةٍ، غُفِرَتْ ذُنُوبُهُ وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ."
(صحیح بخاری)

یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ ذکر الٰہی سے گناہوں کی معافی ملتی ہے۔

ذکر کی اہمیت

1. روحانی سکون

ذکر الٰہی انسان کے دل کو سکون بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ"
(سورۃ الرعد: 28)

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ کے ذکر سے دل کو سکون ملتا ہے۔

2. ایمان کی مضبوطی

ذکر الٰہی انسان کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ عمل انسان کو اللہ کی رحمت کا طلبگار بناتا ہے اور اسے اللہ کے قریب کرتا ہے۔

3. مثبت سوچ

ذکر کرنے سے انسان کی سوچ مثبت ہوتی ہے۔ یہ عمل انسان کو مایوسی سے نکالتا ہے اور امید کی کرن فراہم کرتا ہے۔

نبیوں کی مثالیں

1. حضرت محمد ﷺ

نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ذکر الٰہی کی اہمیت کو سمجھایا۔ آپ ﷺ ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے تھے اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا کو مدنظر رکھتے تھے۔

2. حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے ذکر کی تلقین کی تاکہ وہ اپنی مشکلات میں صبر کریں اور اللہ کی مدد پر یقین رکھیں۔

3. حضرت عیسیٰ علیہ السلام

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اللہ کے ذکر کی تلقین کی، تاکہ وہ اپنے گناہوں کا احساس کریں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔

ذکر کی عملی صورتیں

1. اذکار

روزانہ اذکار پڑھنا ذکر الٰہی کی ایک شکل ہے۔ مثلاً، صبح و شام کے اذکار، اور دیگر مسنون اذکار جیسے لا الہ الا اللہ، سبحان اللہ، اور الحمدللہ۔

2. تلاوت قرآن

قرآن کی تلاوت بھی ذکر الٰہی کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ یہ عمل انسان کو اللہ کے کلام سے قریب کرتا ہے اور اس کی روحانی حالت کو بہتر بناتا ہے۔

3. دعا

دعا بھی ذکر الٰہی کا ایک اہم طریقہ ہے۔ جب انسان اللہ سے دعا کرتا ہے تو وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے۔

4. نفل نماز

نفل نماز پڑھنا بھی ذکر الٰہی کی ایک شکل ہے۔ یہ عمل انسان کے دل کو سکون بخشتا ہے اور اسے اللہ کی رضا کی طلب میں رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ذکر کے فوائد

1. دل کی پاکیزگی

ذکر الٰہی دل کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔ جب انسان اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوتا ہے، جو روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے۔

2. تعلق کی مضبوطی

ذکر الٰہی انسان اور اللہ کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ جب انسان اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے۔

3. گناہوں کا کفارہ

ذکر الٰہی انسان کے گناہوں کا کفارہ بھی بنتا ہے۔ یہ عمل انسان کو اپنے گناہوں کا احساس دلاتا ہے اور اللہ کی رحمت کا طلبگار بناتا ہے۔

نتیجہ

ہر نبی نے اپنی امت کو ذکر کی تلقین کی تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، اپنی روحانی حالت کو بہتر بنائیں، اور اللہ کے قریب ہوں۔ ذکر الٰہی انسان کے دل کو سکون بخشتا ہے، ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ بنتا ہے، اور گناہوں کا کفارہ بھی فراہم کرتا ہے۔

یہ مضمون اس بات کا عکاس ہے کہ ذکر الٰہی کی اہمیت کو سمجھ کر ہم اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ذکر الٰہی کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنائے تاکہ وہ اللہ کی رحمت اور قربت حاصل کر سکے۔ یہ عمل ایک مستقل کوشش کا متقاضی ہے، لیکن اس کے ثمرات انمول ہیں۔