تعارف
ذکر اللہ عزوجل انسان کی روح کو سکون، دل کو اطمینان اور زندگی کو مقصد عطا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں بار بار ذکر الٰہی کی تاکید کی گئی ہے تاکہ بندہ دنیاوی مشغولیات اور غفلت سے نکل کر اپنے رب تعالیٰ کی طرف رجوع کرے۔ ذکر نہ صرف عبادت ہے بلکہ ایمان کی تازگی، گناہوں کی بخشش اور زندگی کی ہر پریشانی کا حقیقی علاج ہے۔ اللہ رب العزت نے متعدد مقامات پر ذکر کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور ساتھ ہی غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔
یہ مضمون ذکر کی فضیلت کے قرآنی دلائل اور غور و فکر کے انداز کو اجاگر کرتا ہے تاکہ مسلمان اپنی زندگی میں ذکر کو لازم پکڑ کر کامیاب اور بابرکت زندگی گزار سکیں۔
ذکر کی اہمیت قرآن کی روشنی میں
1. دل کا سکون اور اطمینان
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ﴾
(سورۃ الرعد: 28)
یعنی "یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔"
یہ آیت ذکر کی سب سے بڑی فضیلت کو واضح کرتی ہے کہ انسان کی بے چینی، ڈپریشن، اور اضطراب کا اصل علاج ذکر الٰہی ہے۔
2. غفلت سے نجات
قرآن مجید میں ہے:
﴿وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ﴾
(سورۃ الاعراف: 205)
یعنی "اور غافلوں میں سے نہ ہو جانا۔"
ذکر انسان کو غفلت سے نکالتا ہے اور دنیاوی الجھنوں میں ڈوبنے سے بچاتا ہے۔
3. سب سے بڑا عمل
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾
(سورۃ العنکبوت: 45)
یعنی "اور بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔"
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ذکر الٰہی ہر عمل سے بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ براہِ راست رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے۔
4. اللہ کا ذکر کرنے والوں کے ساتھ اللہ کا ذکر
قرآن میں فرمایا گیا:
﴿فَاذْكُرُوْنِيْ اَذْكُرْكُمْ﴾
(سورۃ البقرۃ: 152)
یعنی "تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا۔"
یہ اعزاز بندے کو بخشا گیا ہے کہ جب وہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو رب العالمین اسے اپنی رحمت میں یاد فرماتا ہے۔
5. غفلت کرنے والوں کی مذمت
قرآن میں ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾
(سورۃ طہ: 124)
یعنی "اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کی زندگی تنگی میں گزرے گی۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ ذکر کو چھوڑنے کا نتیجہ دل کی بے سکونی، معاشی مشکلات اور زندگی کی مشکلات کی شکل میں نکلتا ہے۔
غور و فکر کا انداز: ذکر سے عقل و شعور کی بیداری
1. کائنات پر غور
قرآن بار بار انسان کو کائنات کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ﴾
(سورۃ آل عمران: 190)
یہ غور و فکر بندے کو ذکر کی طرف لے جاتا ہے تاکہ وہ خالق کی عظمت کو یاد کرے۔
2. ذکر اور فکر کا ملاپ
ذکر اور فکر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ذکر انسان کو روحانی طاقت دیتا ہے اور فکر عقل کو بیدار کرتی ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
﴿يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا﴾
(سورۃ آل عمران: 191)
یعنی "وہ آسمان و زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے رب! تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا۔"
3. ذکر کا حقیقی مقصد
ذکر محض زبان کی تسبیح نہیں بلکہ دل و دماغ کو اللہ عزوجل کے ساتھ جوڑنے کا ذریعہ ہے۔ جب بندہ ذکر کے ساتھ غور کرتا ہے تو اس کی سوچ بدلتی ہے اور اس کی زندگی میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
ذکر کے عملی فوائد
-
نفسیاتی سکون: ذکر ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے۔
-
روحانی طاقت: ذکر انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے اور ایمان کو تازہ کرتا ہے۔
-
معاشرتی برکت: ذکر کرنے والے گھر میں رحمت اور سکون آتا ہے۔
-
مشکلات کا حل: قرآن نے ذکر کو تنگی و مشکل سے نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
ذکر کے مختلف انداز
-
زبان سے ذکر: سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر۔
-
دل سے ذکر: دل کی خاموشی میں اللہ کو یاد کرنا۔
-
عملی ذکر: اللہ کے احکام پر عمل کرنا۔
-
اجتماعی ذکر: محافل ذکر میں شمولیت۔
ذکر کو زندگی میں شامل کرنے کے طریقے
-
صبح و شام کے اذکار کی پابندی۔
-
قرآن کی تلاوت کو ذکر کے طور پر اپنانا۔
-
نماز کے بعد مخصوص اذکار پڑھنا۔
-
روزمرہ کے کاموں میں "بسم اللہ" اور "الحمد للہ" کو معمول بنانا۔
-
تنہائی میں دل کی گہرائی سے "لا الہ الا اللہ" کہنا۔
سائنسی اور نفسیاتی فوائد
-
دماغ میں سکون پیدا کرنے والے ہارمونز (Serotonin & Dopamine) کا اخراج۔
-
دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر میں توازن۔
-
منفی خیالات میں کمی اور مثبت سوچ میں اضافہ۔
-
نیند کے مسائل میں بہتری۔
نتیجہ
قرآن مجید نے ذکر کو زندگی کی کامیابی کی کلید قرار دیا ہے۔ ذکر نہ صرف روح کو بیدار کرتا ہے بلکہ فکر کو بھی صاف اور مثبت بناتا ہے۔ جو شخص ذکر اور غور و فکر کو اپنی زندگی کا حصہ بناتا ہے وہ نہ صرف دنیا میں سکون پاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کا مستحق بنتا ہے۔
لہٰذا، آئیے ہم سب ذکر کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں، قرآن کی ان آیات پر غور کریں، اور اپنے دل کو اللہ عزوجل کے نور سے منور کریں۔